افغانستان ہمارا اسلامی ہمسایہ ملک کہ جو کسی نہ کسی طرح پراکسی وار(خفیہ جنگ) کا حصہ بنتا رہا۔میں یہاں روس جنگ کی بات نہیں کرو گا ۔وہ تو ماضی کا قصہ بن چکا ہے ۔مگر جب آج کی بات کی جائے تو آج کا افغانستان بھی ماضی کی روایئتوں کی طرح پراکسی وار کا گھڑھ بن چکا ہے۔سونا،چاندی،تیل
نمک ،کانسی سلفر اور دیگر معدنیات کا حامل یہ ملک آج چند ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے لئے پلے گراؤنڈ کی حیثیت سنبھالے ہوئے ہے۔ان ممالک میں بھارت،اسرائیل اور امریکہ سرفہرست ہے۔یہاں پہ کام کرنے والی انٹیلی جنس ایجنسیوں میں دنیا اور پاکستان کی نمبر ون ایجنسی آئی۔ایس۔آئی کا نام بھی قابل ذکر ہے۔چلیں ایک بار پھر بات کرتے ہے روس جنگ کی۔جب روس افغانستان کی عوام کو دھوبی کی طرح دھو رہا تھاجو بھی نظر آتا اس کو کچل دیا جاتا تھا تب پاکستان جیسے کمزور ملک کی ایجنسی نے اکیلے اس وقت کے سپر پاور کو یہاں سے ماربھگایا۔اسی وقت 23لاکھ افغانی پاکستان آبسے۔لیکن اس طرف سے مہمان نوازی میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی۔اب آج کے دور میں واپس آتے ہیں۔کئی لاکھ افغانیوں کو کھلانے پلانے والا ملک اور دوسری طرف روسی فوج کا ساتھ دینے والا ملک۔ان افغانیوں نے دوسرے ملک کو چنا۔14مئی2007 کو افغانی اور پاک فوج کے درمیان جھڑپ ہوئی۔ اور اس کے بعد سے آج تک طورخم کی طرح کے واقعات آپ دیکھ سکتے ہے
2002 کو ایک افغانی انٹیلی جنس ایجنسی بنائی گئی جس کا نام NDSرکھا گیا
اس افغان ایجنسی نے پاکستان میں رآ سے ملکر بڑی دہشتگردی کروائی۔حتیٰ کے اول سن پاکستان ایجنسی وہاں پہ امن کوششوں میں مصروف رہی۔ہمارا ازلی دشمن بھارت کو اک نیا محاز مل گیا۔اس نے نہ صرف پاکستان میں لوگوں کا قتل عام کروایا بلکہ پاکستان کی معیشت کی جان نکالنے کی بھی کوشش کی۔
اور ایسا ہی اس سے پہلے وہ مشرقی پاکستان(بنگلہ دیش) میں کر چکا تھا۔ بھارت کے لیے یہ کوئی نیا کام نہ تھا۔بات رہی افغان ایجنسی کو تو اس کو بنے ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہ ہوئے ہے اور وہ پاکستانی ایجنسی سے پنگا لینے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے۔ سندھوں دیش،پختونستان،جاگ پنجابی جاگ اور آزاد بلوچستان کے نعروں کی جو باز گشت ہے وہ ان دو پاکستان مخالف ایجنسیوں کی حماقت کا نتیجہ ہے۔چلیں اب کچھ بات کرتے ہے پاکستانی حکومت کی کہ جن کا رویہ کچھ مشکوک سا رہا۔میں مریم نواز کی ٹویٹ کے متعلق بات نہیں کروں گا کہ انہوں نے اس موقعہ پہ کوئی ٹویٹ نہیں کی۔
بلکہ بات تو ہمارے وزیر دفاع جناب خواجہ آصف صاحب کی ہوگی۔مجھے اکثر ایسا لگتا ہے کہ وہ پاکستان کے نہیں بلکہ نواز شریف صاحب کے دفاع کے ذمہ دار ہے۔پانامہ لیکس کے معاملے پہ چوکس رہنے والے خواجہ صاحب اس معاملے پہ خاموش نہیں بلکہ بے ہوش پائے گے۔رہی نواز شریف صاحب کی بات تو وہ اللہ لوگ ہے۔ابھی تو وہ ہیر ٹرانسپلاٹ والے ہسپتال سے دل کی سرجری کروا کہ فارغ ہوئے ہے ۔ابھی تھوڑا عرصہ لندن میں اپنے بالوں کا نہیں جناب دل کا خیال رکھے گے پھر ہی شائد پاکستان کا نمبر آئیں۔پانامہ لیکس پہ 2 دفعہ قومی ٹی وی پہ خطاب کرنے والے بھارت کی دھمکیوں،رآ کے اافسر کی گرفتاری اور طورخم بارڈر پہ بولنا ہی بھول گئی۔۔اور عوام کہتی رہ گئی!
تو ادھر اٌدھر کی نہ بات کر ،یہ بتا کہ قافلہ کیوں لوٹا
مجھے رہزنوں سے گلا نہیں،تیری رہبری کا سوال ہے
جناب مودی صاحب کی بھی کچھ بات کرلیتے ہے،دورے پہ دورہ تو بھی کرتے ہے لیکن ان کا ہر دورہ بھارت کے لئے کوئی نہ کوئی نیا پیغام مسرت لے کے آتا ہے۔بات ہو امریکا کی،یورپ کی،یا خلیجی ممالک کی وہ جہاں بھی گئے ان کی بہت عزت افزائی کی گئی۔کیوں؟ کیونکہ وہ اپنے ملک کے ساتھ مخلص ہے۔ان کی کوئی جائیداد باہر نہیں اور نہ ہی ان کے بیٹوں نے فیڈر چھوڑتے کاروبار میں اپنا لوہا منوایا۔میری خواجہ صاحب کو درخواست ہے کہ جب وہ ٹریکٹر ٹرالی سے فارغ ہوجائے تو ذرا اک نظر کرم پاکستان بھی پہ فرمادیں۔مہربانی ہوگی
No comments:
Post a Comment
Note: only a member of this blog may post a comment.