یہ چترال ایئر پورٹ کا منظر ہے ۔ طیارے میں 47مسافر سوار ہیں۔ کچھ لوگ ونڈوز سے باہر رن وے اور ملحقہ پہاڑیوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ بچے خوشی سے چہچہا رہے ہیں
کچھ لوگ چھٹیاں گذار کر واپس جا رہے ہیں کچھ لوگ سیروتفریح سے واپس جا رہے ہیں
طیارہ فضا میں بلند ہوا، بلندی پر گیا اور لیول فلایئٹ اڑنے لگا۔
کچھ لوگ کھڑکی سے نیچے زمین کا منظر دیکھ رہے ہیں، پہلے نیچے برف پوش چوٹیاں آئیں اسکے بعد سرسبز پہاڑی چوٹیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا
جہاز کے اندر کا منظر انتہائ خوش گوار ہے، ایئر ہوسٹس مسکراہٹں بکھیرتی ہوئ تمام مسافروں سے باری باری پوچھ رہی تھی کہ وہ کیا کھانا پینا پسند کریں گے، کچھ لوگ چائے، کچھ کافی سے دل بہلا رہے تھے
کہ اچانک جہاز نے ایک زوردار جھٹکا کھایا اور تھوڑا سا ایک سائیڈ کو جھک گیا، کچھ لوگوں کے ہاتھوں سے چائے اور کافی چھلک گئ، خواتین اور بچوں کی چیخیں نکل گئیں
فلایئٹ ایٹنڈنٹ نے حالات کو سنبھالنے کی کوشش کی اور لوگوں کو پرسکون رہنے کی گزارش کی۔ اتنے میں کاک پٹ سے پائلٹ کی آواز سنائ دی، خواتین حضرات جہاز میں ہلکی سی خرابی پیدا ہوگئ ہے جسکی وجہ آپکو تکلیف کا سامنا کرنا پڑے گا، لیکن ہم یقین دلاتے ہیں آپکو حفاظت سے اسلام آباد پہنچائیں گے، سب لوگ کچھ دیر کے لیئے اپنے سیٹ بیلٹ باندھ لیں
یہ جہاز کے فرسٹ آفیسر (Co-Pilot) احمد جنجوعہ ہیں ، ان کی بائیں طرف انکے بڑے بھائ اور جہاز کے کیپٹن صالح جنجوعہ ہیں جن کی پیشانی پسینے سے شرابورہے اور وہ مختلف نابز کو گھما رہے ہیں۔ پھر انہوں نے ریڈیو سے ایئر ٹریفک کنٹرول سے رابطہ کیا۔ یہ فلائیٹ پی کے 661 ہے اور میں کیپٹن صالح ہوں، ہمارا بلندی اور لوکیشن۔۔۔۔ فیٹ ہے اور ہمارے جہاز کا نمبر1 انجن فیل ہوگیا ہے، ہمیں اسلام آباد ایئرپورٹ کا رن وے خالی چاہئے۔ ٹریفک کنٹرولر نے ذرا توقف سے کہا کہ آپ کے لیئے دونوں رن وے خالی کرائے جا رہے ہیں آپ جس End سے چاہیں لینڈ کر سکتے ہیں
جہاز کے پسنجر ایریا میں ابھی پریشانی برقرار ہے،
کہ اچانک ایک 5 سالہ بچے کی چیختی ہوئ آواز آئ مما وہ دیکھیں آگ لگ گئ ہے،، سب لوگوں نے چونک اپنی بائیں طرف والی کھڑکی سے دیکھنے کی کوشش کی ، اسکے بعد چیخ و پکار کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس دوران سب کی جانی پہچانی شخصیت جنید جمشید اپنی سیٹ سے کھڑے ہوئے اور نہایت رقت آمیز آواز میں مسافروں سے مخاطب ہوئے، میرے بھایئو اور بہنو،، یہ وقت چیخ و پکار کا نہیں بلکہ اللہ سے مدد مانگنے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگنے کا ہے،، انہوں نے بمشکل ایک منٹ ہی بات کی ہوگی کہ جہاز کی بائیں طرف ایک زوردار دھماکہ ہوا اور انجن سے لوہا اور دیگر پرزے نیچے گرنے لگے۔
جہاز زبردست ہچکولے کھانے لگا، لوگوں کی چیخوں میں ایک عجیب و غریب درد اور خوف شامل ہوگیا، کچھ لوگ زور زور سے کلمہ پڑھنے لگے، کچھ لوگ اپنی سیٹ بیلٹ کھول کر آگے کی طرف بھاگنے لگے۔ انکو کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ کیا کریں
کس سے مدد مانگیں، انکے منہ سے عجیب و غریب آوازیں نکل رہی ہیں، وہ زاروقطار رو رہے ہیں۔ دو تین لوگ ہارٹ اٹیک سے پہلے ہی دم توڑ چکے ہیں ، کچھ بے ہوش اور باقی نیم بے ہوشی کی حالت میں ہیں۔ جہاز میں کان پڑی آوازسنائ نہیں دے رہی ۔ وہ سب جان گئے ہیں کہ اب کچھ نہیں ہونے والا ، اب انکی زندگی کے آخری لمحات شروع ہوچکے ہیں۔ اب وہ اس دنیا کو کبھی نہیں دیکھ سکیں گے، اب یہ سفر یہیں تمام ہوا چاہتا ہے۔ اب وہ اپنے پیاروں کو کبھی نہیں دیکھ سکیں گے
اتنے میں کیپٹن کی چیختی ہوئ آواز سنائ دی خواتین و حضرات ہمارا جہاز کچھ دیر میں زمین سے ٹکرا جائے گا، اب کوئ امید نہیں بچی۔ آپ لوگ کلمہ پڑھ لیں
اس announcement کے بعد مسافروں کی چیخیں آسمان کا بھی سینہ چیرنے لگیں، یہ سوچ سوچ کر انکے کلیجے پھٹ رہے تھے کہ اب کیا ہوگا۔اب کیسے موت آئے گی،موت کتنی دردناک ہوگی،انکی جان کتنی مشکل سے نکلے گی،یہ بھڑکتی ہوئ آگ انکو کیسے جلائے گی،نیچے گر کر انکے نازک جسموں کی کتنی ہڈیاں ٹوٹیں گی، کیسے جان نکلے گی،کتنی اذیت ناک ہوگی یہ موت۔
جہاز کے کوپائلٹ نے امید بھری نظروں سے اپنے بڑے بھائ کی طرف دیکھا،، بھائ جان خدا کے لیئے کچھ کیجئے،،، کسی طرح اس حادثے کو روک دیجئے، صالح جنجوعہ نے اپنا دایاں ہاتھ چھوٹے بھائ کے ہاتھ پر رکھا اور کہا بیٹا اب کچھ نہیں ہوسکتا،،،، میں تم سے شرمندہ ہوں۔۔
اس نے اپنے بھائ کی طرف دیکھا اور سوچا کہ کاش وہ اسکو اپنے ساتھ نہ لاتا،،، کاش یہ بچ جاتا،،، پھر اس نے آخری بار چیختے ہوئے دو دفعہ مے ڈے مے ڈے کی کال دی پھرزور سے کلمہ پڑھا
اسکے بعد آخری دھماکہ ہوا،،،، سب کچھ بکھر گیا،،، آخری لمحات کی چیخیں انتہا کی اذیت ناک اور خوفناک تھیں،،، آگ جہاز کے کیبن تک پہنچ گئ،،، زندہ بچ جانے والے آگ کے شعلوں کو نزدیک پاکر اٹھنے کی کوشش کرنے لگے،،، لیکن وہ ہل بھی نہیں سکتے تھے کیونکہ انکے ہاتھ پاوں ٹوٹ چکے تھے،،، انکی پسلیاں ایک دوسرے میں پیوست ہوچکیں تھیں
آگ سے جلنے کی بو اور آوازیں بہت وحشت ناک تھیں۔۔۔۔ سر بال،،، چہرہ،، گردن،پورا جسم،ہڈیاں،روح،ہر چیز جل رہی تھی،اب چیخنے والے گلے بھی جل چکے تھے،اب کوئ آواز نہیں بچی تھی،اب صرف جلی ہوئ لاشیں تھیں،ان سے اٹھتا ہوا دھواں تھا،ناتمام حسرتیں تھیں،
)کاپی)
No comments:
Post a Comment
Note: only a member of this blog may post a comment.
No comments:
Post a Comment
Note: only a member of this blog may post a comment.